اتوار، 4 نومبر، 2018

انہیں لگا رہنے دو!


کافی عرصہ سے میں اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا مگر ہر بار سوچا کہ نہیں اسکی ضرورت نہیں اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا مگر حالات و واقعات متواتر ایسے رونما ہورہے ہیں کہ لکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم جو 
سوچ اللہ بار بار میں دماغ میں ڈال رہا ہے اور اس سے جان چھڑانے کی ناکام کوشش کررہا ہوں وہ ہو نہیں پارہی۔


پچھلے دو مہینوں میں پاکستان میں جو دو واقعات ہوئے ہیں اسکا اجتماعی ردعمل بڑا  عجیب سا آیا ہے ۔ درحقیقت ایسا ردعمل آنا معمول بن گیا ہے، ایسے ردعمل کو انگریزی میں عام اصطلاح میں نی جرک”(knee-jerk reaction)  کہتے ہیں۔
یعنی کہ کوئ واقعہ ہوا اور فورا بنا سوچے سمجھے اسکا ردعمل دکھادیا، یہ سوچ کر کہ اس سے اس مسئلہ کا علاج ہوگیا حالانکہ وقتی طور پر لگتا ہے ہوتا ایسا نہیں ہے۔
ایسا ردعمل عام طور پر اسی وقت آتا ہے جب آپ کو یہ قطعی امید نہ ہو کہ ایسا ہوگا اور وہ واقعہ ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ جاب کررہے ہیں اور کوئ امید نہیں کہ جاب ختم ہوجائے گی مگر ایک دن آتا ہے کہ  باس بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کی اب ضرورت نہیں۔ جس پر بیت رہی ہوتی ہے اسکا دماغ سن ہوجاتا ہے اور کام کرنا بند کردیتا ہے یہ سوچ کر کہ میں نے تو کچھ ایسا نہیں کیا پھر یہ کیا ہوگیا مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔ بظاہر آپ کو لگتا ہے کہ وہ واقعہ اچانک بنا کسی وجہ سے ہوا مگر درحقیقت کوئ نہ کوئ وجہ ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں اللہ نے ایسا نظام رکھا ہے کہ کوئ بھی واقعہ بنا کسی وجہ سے نہیں ہوتا۔ آپ کچھ بھی چیز اٹھالیں کوئ نہ کوئ وجہ ہوگی۔اب آپ دین کو ماننے والے ہوں یا ملحد، کوئ نہ کوئ وجہ آپکو اپنے لحاظ سے ضرور نظر آئے گی۔ مثلا مسلمانوں کے نزدیک دنیا بننے کا واقعہ کی وجہ اور ہے اور ملحد کے نزدیک کوئ اور مگر اس پر کسی کو انکار نہیں کہ واقعہ ہوا یعنی دنیا بننے کا۔
نسیم طالب جو لبنانی امریکن عیسائ ہیں اور پیسے کے لحاظ سے اسٹاک ٹریڈر کی ایک قسم کوانٹہیں وہ اپنی مشہور کتاب (Fooled by Randomness) میں متبادل تواریخ کا ذکر کرتے ہیں.نسیم کہتے ہیں کہ جو بھی واقعہ ہوتا ہے  اسکے متبادل واقعات جو ظہور پذیر نہیں ہوئے وہ گنے نہیں جاسکتے۔ مثلا میں اسوقت یہ پوسٹ لکھ رہا ہو۔ متبادل اسکے بہت کچھ کرسکتا تھا۔ ہوسکتا تھا کہ میں کوئ کتاب پڑھ رہا ہوں، یا ای میل کررہا ہوں، غرض ممکنات بہت ہیں۔ اب وجو واقعہ ظہور پذیر ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ماننا کہ ہمیں غیب کا نہیں پتہ مگر اللہ نے ہمیں اتنی صلاحیت ضرور دی ہے کہ جو ہوسکتا ہے اسکی تیاری کی جائے اور تیاری کے لئے ماضی کی تجربات اور مشاہدات کام آسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی کی جاب اچانک چلی جائے، اگر اسکو یہ علم کے کہ جاب چھوٹ بھی سکتی ہے کیونکہ کمپنی کے حالات ٹھیک نہیں یا باس سے بات نہیں بن رہی تو پہلے سے وہ متبادل کی تیاری کرے گا۔ اگر تیاری ہوگی تو ہوسکتا ہے کہ وہ واقعہ نہ ہو جس کے اچانک ہونے کا خدشہ ہے یعنی کی جاب خود چھوڑ دی اور کہیں اور اچھی جگہ چلا گیا یا پھر اگر وہ واقعہ ہونا بھی ہو تو اسکی تیاری ہو۔

اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد ان دو واقعات پر بات کرنا ہے جس کا پاکستان میں بڑا چرچا ہے۔ ایک عاطف میاں قادیانی کو بحیثیت معاشی مشیر لانا اور دوسرا آسیہ مسیح کی سزا معطلی۔دونوں موقعوں پر حواس باخگتی کا عالم ہے۔عاطف کو جب لایا گیا تو ایک شور برپا تھا کہ قادیانی کو حکومت میں نہیں رہ سکتے یہ وہ حالانکہ آئین میں اسکی ممانعت تھی نہیں۔ اب اوپر جو بتایا اسکی رو سے جب تہتر کے آئین میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا اور حکمران کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا تو اسوقت جن لوگوں نے یہ فیصلہ لکھا انکو آئین میں یہ بھی شق ڈالنی چاہیے تھی کہ قادیانیوں کو ریاست کے کسی معاملہ میں نہ شامل کیا جائے، یہ اسوقت نہیں سوچا گیا اور پھر کئ سالوں بعد اسکو استعمال کیا گیا۔ جب پچھلوں نے متبادل تواریخ اور واقعات کو مدنظر نہیں رکھا تو اسمیں قصور قادیانیوں کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا جن سے یہ غلطی مرتکب ہوئ۔ وہ یا تو اس مسئلہ کی سنگینی نہیں جانتے تھے یا پھر انکو یہ آئیڈیا نہیں تھا کہ قادیانی ریاستی امور میں گھسیں گے یا پھر یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان اتنے سہم جائیں گے کہ ایک قادیانی کے آنے سے کانپنے لگیں گے۔ واللہ عالم۔



یہی سب آسیہ کہ توہین رسالت (ص) اور پچھلے اس جیسے واقعات کے ساتھ ہوا۔ جب توہین کی شقیں آئین میں شامل کی جارہی تھیں تو جتنے ممکنات واقعات ہوسکتے تھے انکا کچھ حصے کے بارے میں تدبر اور رائے سے انکا جواب دینا چاہیے تھا۔ مثلا،، زیادہ تر ایسے واقعات گاوں دیہات میں ہوئے ہیں اور گاوں میں تعلیم کا فقدان ہے، اگر ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا تو نہ صرف ایسے واقعات  نہ ہوتے تو اور اگر ہوتے تو انکی صحیح جانچ پڑتا ل ہوتی۔
ہوا کیا؟ وہی جو اوپر عرض کیا، غیر سوچا سمجھا ردعمل آیا، شہر کے شہر بند ہوئے اور لوگ متاثر ہوئے۔ عام آدمی کی تو خیر ہے، دینی اور غیر دینی دونوں طبقوں کے روسا کا ردعمل بھی عام لوگوں کی طرح تھا،، جن لوگوں کی طرف مجھے جیسے عام لوگ دیکھ رہے تھے وہ بھی  ایک لاچارگی اور حواس باخگتگی کے عالم میں تھے۔ کیوں بھئ! جب آپ کو اللہ نے علم دیا، سمجھ بوجھ دی تو حکمت سے کیوں نہیں کام لیا اور اب اس طرح کے ردعمل سے کیا تاثر چھوڑا جارہا ہے؟ وہی جو سامنے والے ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں، ،پرتشدد اور حکمت سے عاری۔ اکابر جو ہیں وہ بھی کچھ صحیح راہ نہیں جانتے یا بتا نہیں پارہے اور عام آدمی تو سڑکوں پر، نتیجہ یہ کہ دنیا کو پیغام  کہ ہم کو اگر کوئ اختلاف ہو تو ہم اسکا حل صرف لڑ جھگڑ کر اور جذباتی ہوکر نکالتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں کہ جب کسی قوم اور کمیونٹی کے اکابر سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور حکمت عملی تیار کرتے ہیں کہ آئیندہ ایسا کیا کیا جائے کہ ایسے واقعات نہ ہوں۔

ہو کیا رہا ہے؟

اسکے لئے ذرا نہیں بلکہ کافی پیچھے جانا پڑے گا۔ مجھے یاد ہے کہ سن ۸۰ کی دہائ میں جب ہم چھوٹے تھے تو چوائسز اور آسائشیں کم ہونے کی وجہ سے زندگی کافی پرسکون تھی۔ شائد میں بچہ تھا اسلئے ایسا سوچوں مگر جب آج کے بچوں کا موزانہ اپنے زمانے سے کرتا ہوں تو اسمیں زندگی کی گہما گہمی اتنی نہ تھی، نتیجا دماغ زیادہ تر وقت پرسکون۔ بچے اور بڑے ایک دوسرے کو وقت دیتے تھے اور بچوں کی تربیت پر وقت صرف ہوتا تھا۔ کیونکہ ٹی وی اتنا عام تھا نہیں،۔ شام چار سے رات گیارہ تک صرف ٹی وی ہوتا تھا۔ عورتیں جلد صبح کام کاج سے فارغ اور پھر آس پاس کی خبر رکھنا وغیرہ۔ یہی حال مردوں کا تھا۔ فاسٹ فارورڈ کریں تو ہم پر اچانک کئ تاپڑ توڑ حملہ ہوئے۔بجلی گیس وغیرہ کی کمی، بلوں کی زیادتی، روپے کی قدر گرنا وغیرہ۔ جب یہ سب ہوا تو گھر کے اخراجات بڑھے۔ سونے پہ سہاگہ کہ ٹی وی پر رنگا رنگ چیزوں نے لوگوں کی خواہشات کو ضروریات میں تبدیل کردیا جسکی وجہ سے مرد ڈبل نوکریاں کرنے لگے، عورتوں کے پاس بھی وقت نہ رہا کہ انکو نوکری کرنی تھی۔ آخر کار اسٹیٹس بھی تو قائم رکھنا ہے۔ غرض میڈیا، تعلیم، کنزیومر گڈز چہار سو ایسے حملہ ہوئے کہ جو لوگ پہلے غیروں کی خبر ہوتی تھی انکو اپنوں کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ رہی سہی کسر ملکی حالات نے پوری کردی۔ غرض ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔

سوال یہ کہ کیا سب بس ایسے ہی ہوریا ہے؟ کیا ایسے ہونا بس لکھا تھا کہ جب ہم اگلی صدی میں داخل ہوں گے تو ہر طرف شور برپا ہوگا؟ نہیں ایسا نہیں۔ یہ سب بس ایسے ہی نہیں ہورہا بلکہ ایسا اسٹیج تیار کیا گیا کہ ایسا ہو۔ کون کررہا ہے؟ وہی جن کو ہم صبح و شام گالیاں بھی دیتے ہیں اور دم بھی بھرتے ہیں۔ اپنے وہی یہود و نصاری۔ اب گالی دیں یا انکے دم بھریں، دونوں صورتوں میں ہم خود کچھ نہیں کرتے۔ کہا اور یہ جا وہ جا۔ کہنےکا مقصد یہ کہ ہم پر ایک ایسی جنگ مسلط ہوئ ہے جس میں یہ نہیں معلوم کہ گولی کہاں سے آرہی ہے اور کہاں لگے گی، ہم بس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں کررہے ہیں۔ ہمارے اذہان پر جو حملہ ہوا یے وہ اتنا خطرناک ہے کہ اسکا خمیازہ ہم عشروں سے بھگت رہے ہیں او ر بھگتیں گے تا وقتہ کہ کچھ سوچنا شروع کریں۔ اس نفسیاتی و معاشی جنگ کو بندوقوں سے نہیں جیتا جاسکتا۔

ہونا کیا چاہیے؟

چند گزارشات ہیں کیونکہ یہ موضوع چند لائنوں میں پورا نہیں کیا جاسکتا۔ میں موٹی موٹی چند باتیں عرض کئے دیتا ہوں جو مجھ ناچیز کے ذہن میں آئیں ہیں۔

  •  سب سے پہلے تو دماغ سے یہ سوچ نکالنی ہوگی کہ ہم لاچار و مجبور ہیں۔ جب انسان کا دماغ پہلے سے ہی سوچ لے کہ وہ بے بس ہے تو وہ کچھ نہیں کرسکتا لہذا عوام و خواص ہر ایک کو یہ رونا دھونا ترک کرنا ہوگا کیونکہ اب یہ نوبت ہے کہ ہر مسجد و گھر سے یہود و نصاری کو گالیاں دی جاتیں ہیں مگر کچھ نہیں ہوتا اور کہاں ایک وقت تھا کہ مسلمان فوج نے صرف مسواک شروع کیا اور دشمن بھاگ گیا۔ لہذا یہ لاچارگی ختم کرنی ہوگی۔ دنیا کی قوموں پر مصیبتیں آئ ہیں مگر انہوں نے شکایتوں کے انبار نہیں لگائے بلکہ ان میں سے جو سب سے زیادہ قابل تھے انہوں نے آنے والی نسلوں کے لئے حکمت عملی تیار کی۔ ہمارے ذہن میں جان بوجھ کر مایوسی پھیلائ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جو بھی ہورہا ہے، وہ تو ہورہا ہے، ردعمل میں ہم صرف بین اور رونا دھونا ہی کرتے ہیں۔ کیوں بھئ! کیا ہم اپنی تاریخ یکسر فراموش کرگئے ہیں کہ ہم صرف شرمندہ شرمندہ سے رہتےہیں۔ دوسروں کے برعکس ہماری ماضی تو بہت اچھا تھا۔ دوسروں نے ماضی خراب ہونے سے سبق سیکھا، ہم نے ماضی کو صرف قصوں میں تبدیل کردیا اور صرف افلاس کے گن گانے میں گذار دیا۔دوسرے جو تھے انہوں نے حال بھی اچھا کرلیا اور مستقبل بھی۔
  • ایسی کھیپ تیار کی جائے جو زندگی کے وہ شعبہ جو عوام پر اپنا دور رس اثر رکھتے ہیں اسکے ناصرف ماہر ہوں بلکہ وہ خود ایسے اذہان تیار کرسکیں جو مستقبل میں ہونے والی متبادل تواریخ کی بنیاد ہر ہونے والے واقعات کو روک سکیں۔ اگر روک نہ سکیں تو کم از انکے پاس وہ تمام آلات و منصوبہ ہوں جو عام لوگوں کو متاثر نہ کرسکیں۔
بس یہ دو باتیں تھیں، تفصیل میں جایا گیا تو صٖفحے کے صفحے بھر جائیں گے اور ہر کوئ اس میں دلچسپی بھی نہیں رکھے گا۔ کبھی کبھی زہر کا تریاق زہر سے ہی نکالنا ہوتا۔ جب تک جنگ میں دشمن سامنے تھے بندوقوں سے مقابلہ آسان تھا۔ اس نادیدہ دشمن کا مقابلہ انہی االات سے کرنا ہے جو وہ استعمال کرتے ہیں۔ اب بھی عقل نہیں آئ تو داستان نہ ہوگی داستانوں میں کیونکہ "وہ" تو یہی چاہتے ہیں کہ انہیں لگا رہنے دو! انکے آس پاس اتنا شور و گرد رکھو کہ پتہ ہی نہ چلے کہ کون وار کررہا ہے۔ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ ورنہ آپکی مرضی کہ اسی میں وقت گزار دیں کہ آسیہ نے توہین کی یا نہیں کی یا ایف آئ ار غلط، یہ وہ یا قادیانی ہم پر نافذ ہوگئے۔ فیصلہ آپکا ہے۔

وما علينا الا البلاغ