ہفتہ، 12 مارچ، 2016

جنازے کا انتقام

"یہ تو کسی ناول کا نام ہوسکتا ہے"۔ بالکل ہوسکتا ہوگا مگر فی الحال میں میں نہ اشتیاق سیریز کی یاد منارہا ہوں اور نہ ہی کوئ ناول کا نام تجویز کررہا ہوں۔ یہ نام تو ممتاز قادری کے جنازے کے ردعمل کو دیکھ کر سامنے آیا جسکو مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے محظوظ کیا۔

 اس بات کو قریبا ہفتہ ہونے سے ہے مگر ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک جنازہ سے اتنی بدحواسی کیوں اور ہمارا لبرل طبقہ اسکو ہضم تو دور، اسکا چکھا ہی کیوں کہ ابتک ردعمل سامنے آرہا ہے؟

 پچھلے چند دنوں میں تدفین کے بعد جو ردعمل آیا وہ میرے نزدیک مضحکہ خیز تو تھا ہی، قابل ترس بھی بن گیا۔ ایک بات تو طے تھی کی مجھ سمیت کسی نے یہ توقع نہیں کی تھی کے لوگ اتنی کثیر تعداد میں حصہ لیں گے کہ مغربی ذرائع ابلاغ بھی کم از کم اسکی تعداد لاکھ بتارہے تھے۔ اب مغربی ابلاغ کے متعلق مشاہدہ ہے کہ جو خبر انکی مرضی کے متعلق نہ ہو تو اس میں وہ اعداد شمار کم ہی بتاتے ہیں لہذا جو بھی انہوں نے فگر بتائ اسکو پانچ چھ سے تو ضرب دے ہی دیں۔

 چونکہ عام زندگی میں تو عوام الناس کا ردعمل سامنے آچکا تھا، انٹرنیٹ کی اقلیتی دنیا میں صورتحال مختلف تھی۔ مزے مزے کی چیزیں پڑھنے کو ملیں۔ مثلا امام حنبل رح کا مشہور زمانہ جملہ "ہمارے جنازے تمھارے اور ہمارے درمیاں فیصلہ کریں گے"، کو ہمارے اسلامی بھائیوں نے دل کھول کر شوشل میڈیا پر شیئر کیا، چلیں وہ انکا موقف اور اسکا پس منظر بھی تھا، ہنسی تو اسوقت چھوٹی جب لبرل طبقہ جو اسوقت جنازے کی شرکا کی تعداد سے ہی مدہوش تھا، اسنے اس بیان کو اپنے دل و دماغ پر سوار کرلیا۔ کئ پڑھے لکھے حضرات گوگل کھول کر دنیا کے بڑے جنازے سرچ کرنے لگے۔ ایک صاحب نے دنیا کے دس بڑے جنازوں کا لنک پوسٹ کردیا جبکہ بہت سے کہنے لگے کہ اس سے بڑا جنازے تو کشور کمار، رفیع اور بال ٹھاکرے کے تھے۔ چلیں یہ تو کچھ نہیں، جنازے نے بہت سے لوگ تو "خلافت" کے اصول کی باتیں کرنے لگے۔ ایک موصوف بولے کے تعداد معنی تھوڑی رکھتے ہیں۔ ایک صحافی خاتون نے لکھا کہ اگر پچاس لاکھ لوگ کسی بیوقوفی کو صحیح سمجھیں تو تب بھی وہ بے وقوفی ہوتی ہے۔ یعنی جمہوریت کا اصل "حسن" جو کہ تعداد کو فوقیت دیتا ہے اسکو یکسر نظر انداز کردیا۔ یہ وہی لوگ ہیں خلافت کے برعکس جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر تو میں بھی سناٹے میں رہا کہ کیا واقعی میں وہی پڑھ رہا ہوں جو وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں یا کوئ اور بات؟ میں اسکی تفصیل میں نہیں جاوں گا کہ امام حنبل نے ایسا کیوں کہا اور کس کا جنازہ جنتی کا ہے اور کس کا دوزخی مگر، خدا کے بندے تقابل تو صحیح کرو! تم خربوزے کا موازنہ آم سے کرو اور اس پر فخر کرو تو اس پر سامنے والا صرف ہنس سکتا ہے۔ بات تو تب ہوتی جب تاثیر کے جنازے کا مقابلہ ممتاز قادری کے جنازے سے کیا جاتا۔ یقینا ایسے موازنے اخباروں اور انٹرنیٹ پر تو ہوسکتے ہیں، عام زندگی میں نہیں کیونکہ اگر آپ کسی خاندان کی محفل میں بھی ایسی موازنے کریں گے تو لوگ صرف آپ پر ہنسیں گے۔ بھئ یہ تو سادہ سا عوامی ریفرنڈم تھا اور کچھ نہیں۔ گوگل کے ہیڈکوارٹر میں بھی کھلبلی مچ گئ کہ پاکستان پر ایسی کیا آفت آگئ ہے کہ لوگ جنازوں کو تلاش کررہے ہیں؟ گورے بیچارے ویسی ہی ڈرے ہوئے ہیں۔ بجائے کے سائنسی مضامین اور ایجادات وغیرہ کے بارے میں جستجو کی جائے ہمارے لبرل طبقہ جنازوں کی کھوج میں ہے۔

 بہرحال صورتحال بڑی عجیب سی ہوگئ ہے اور لبرل طبقہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ جو کام پچھلے پندرہ سالوں میں نصاب کی تبدیلی، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعہ کیا گیا، بظاہر لگتا ہے ایک جنازے نے اس کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ سیکولر بیانیہ کا بنیان تار تار ہوگیا ہے۔ ویسے بھی جو بیانیہ یا نظریہ ایک تدفین سے ڈامل ڈول ہوجائے اسکی کامیابی کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے آفریدی سے کرکٹ میں۔ تدفین والے دن ملک کے مقتدر حلقوں میں ایک سوال بار بار پوچھا جارہا ہوگا، "کتنے آدمی تھے؟" اور جواب ملنے پر ٹشو کے ڈبے کے ڈبے خالی ہوگئے ہوں گے۔

بدھ، 20 جنوری، 2016

سوال

 سوال کرنا اللہ کی طرف سے انسان کو ایک ایسی انوکھی اور بہترین نعمت عطا کی گئ ہے جس کا غلط اور صحیح
دونوں طرح کا استعمال انسان کو کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔

سوال کرنا ان بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہے۔سوال دماغ میں اسی وقت ابھرتا ہے جب انسان کچھ سوچتا ہے، وہ سوچ یا تو کسی مشاہدہ کے پیش خیمہ ہوتی ہے یا تجربہ کا۔

مجھے نہیں معلوم اہل علم اور دانشور کیا وجہ قرار دیتے ہیں، نہ ہی مجھے کھو ج کی ضرورت ہے مگر میرے نزدیک کسی قوم کا عروج و زوال کا بہت حد تک تعلق سوال کرنے یا نہ کرنے سے ہے۔ مسلمان جب تک تجسس میں رہا اسکے دماغ میں سوال جنم لیتے رہے۔ اسنے سائنس، فلسفہ، نفسیات، فلکیات، غرض بہترے علوم میں کامیابی حاصل کی۔ جب سوال کرنا بند کیے تو علم کا دروازہ بھی بند ہوگیا۔ آج کے دور میں چاہے دینی علم ہو یا دنیاوی، سوال کرنے والے کو خاموش کرادیا جاتا ہے۔ خاموش کرانے کے کئ وجوہات ہوتی ہیں جس میں جانا ٖفضول ہے مگر ایک بنیادی وجہ اس    سوال کا جواب نہ ہونا ہے۔ کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ استاد و والدین ایک بچے کو  خاموش کروانے کے لئے ڈانٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ابھی چھوٹے ہو، شش بچے اتنے سوالات نہیں کرتے، وغیرہ کرتے ہیں۔ ایک طرح سے بڑے اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے بچوں کو ڈانٹ دیتے ہیں۔ اچھا جاہل ہونا بری بات نہیں، جہل پر اصرار کرنا ضرور بری بات ہے۔ کسی کی ذہانت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی طرف سے اٹھنے والے سوالات سے لگائیں، ایک عام آدمی بھی کہ  یہ بندہ کتنا ذہین ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کے سوالات کئے جاسکتے ہیں، جہاں تک میں نے پڑھا ہے، دین میں سوال کرنے کی کوئ ممانعت نہیں، چاہے وہ خدا کے وجود کے بارے میں ہوں یا چاند ، سورج کے خالق کے بارے میں جاننے کے۔ سوال انسان کے دماغ کو ایک تشفی دیتے ہیں اور قرآن میں اسکے بارے میں ذکر بھی ہے۔


اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے
(Quran 2:260) 

اس سورت میں ایک جلیل القدر پیغمبر جسکی آیندہ آنے والی نسلوں تین عظیم مذاہب کی بنیاد رکھی، وہ صرف تشفی قلب کی خاطر اللہ سے سوال کررہا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ، اسکی مخلوق اور اسکے کاموں کے بارے میں سوال کرنا دین میں منعی نہیں۔ ہاں البتہ جب تک ایمان کی حالت میں ہے تو کسی چیز کو محض اس لئے رد کردینا کے جواب   نہیں ملا یا پھر عقل نے مطمئین نہیں کیا، وہ غلط ہے۔ جیسا کہ اسی قرآن میں اللہ نے روح  کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو فرمایا:

اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے
(Quran 17:85) 

ادھر بھی اللہ نے کوئ ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کسی کو کافر قرار دیا، صرف یہ کہ دیا کہ انسان کو اسکا علم نہیں عطا کیا گیا۔

صرف قرآن ہی نہیں، ایک بہت ہی مشہور اور طویل حدیث جس کو حدیث جبرائیل بھی کہا جاتا ہے وہ صرف ان سوالات   اسے بھری پڑی ہے ۔ اگر اس حدیث کو غور سے پڑھیں تو اسمیں وہ سوالات کئے گئے ہیں جن کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل دونوں کا تھا، مقصد حاضرین رضی اللہ عنہا اور آنی والی نسلوں کو دین سکھانا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ سوال کا طریقہ ہی کیوں اپنایا گیا؟ وہ تمام باتیں  ایک بیان اور بہت سی دوسری حدیثوں کی طرح نثر کی شکل میں بھی سمجھائ جاسکتی تھیں مگر امت کو یہ بھی سکھانا تھا کہ کس طرح سوالات کرکے علم میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے :

یہ کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں  
Quran 38:29 
ہم خاک غور کریں گے، ہم تو سوالات بھی نہیں کرتے اور نہ غور، چاہے دین کو معاملہ ہو یا  دنیا کا، بس جو اکابر نے کہ دیا، اندھوں کی طرح اسکو من و عن تسلیم کرلیا۔ ہم اتنے کاہل ہیں کہ یہ بھی سوچنا گوارہ نہیں کرتے کہ ہمارے اکابرین نے ایسا اگر سوچا تو کیوں سوچا، یہ سوچنا تو دور کی بات کی اکابرین نے بھی تو سوالات اٹھائے۔

سوال کریں اور بہت سے کریں۔ ضروری نہیں کسی کو اپنے سامنے زبردستی بٹھاکر سوالات شروع ہوجائیں، پتہ چلا کہ مجھ سے پتہ چل رہا ہے کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی سے سوالات کر کر کے اسے مار دیا۔ بھائ آپ اپنے سے بھی سوال کرسکتے ہیں۔ بہت سے علوم کو ترقی اسی وقت ملی جب انسان نے اپنے سے سوال کیے اور انکے جوابات جاننے کے لئے جت گیا۔ اگر آپ کا بچہ سوالات کرتا ہے تو اسے ڈانٹیں نہیں بلکہ اسکی قدر کرییں۔ کسی سوال کا جواب نہیں معلوم تو اس سے کھلے طور پر کہ دیں کہ بیٹا ابھی معلوم نہیں، میں آپ کو معلوم کرکے بتادوں گا. بقول کنفیوشش کے:

ایک شخص جو سوال کرتا ہے وہ صرف چند لمحوں کے لئے بے وقوف ہوتا ہے ، ایک شخص جو سوال نہی کرتا وہ عمر بھر بے وقوف رہتا ہے۔



اتوار، 17 جنوری، 2016

ماہر

کیا بات ہے ناصر پریشان نظر آرہے ہو؟۔نعیم نے ناصر کو دیکھ کر کہا جو کافی پریشان بیٹھا تھا اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
کچھ نہیں بس۔۔ کل رات ابو کی طبیعت اچانک خراب ہوگی تو ایمرجنسی میں ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگے۔ وہاں پر پتہ چلا کہ انکو دل کا دورہ پڑا تھا۔ صبح آج ایک اسپیلشٹ کو چیک اپ کروایا تو پتہ چلا ابو کے دو شریانیں بلاک ہیں ۔ ناصر کافی گھبرایا ہوا تھا۔ نعیم نے اسکو تھپکی دی۔
حوصلہ کرو کچھ نہیں ہوگا۔کیا انکل پہلے سے بیمار تھے؟
نہیں وہ بلکل ٹھیک تھے ایسا کچھ نہیں تھا
یار ڈاکٹر جھوٹ بول رہے ہیں، تم مجھے رپورٹ کی کاپی دو میں خود پڑھ کر دیکھتا ہوں۔ نعیم نے ناصر سے کہا۔
تم؟ ناصر حیرانگی سے بولا؟
تم تو انجینئر ہو۔ تم بھلا کیا جانو؟۔ نعیم  ذور دے کر بولا۔
بھائ نویں جماعت میں بائیلوجی میں پچانوے نمبر آئے تھے۔ نعیم   کا انداز فخریہ تھا۔
تم پاگل تو نہیں ہو؟ کہاں ایک مشہور دل کا ڈاکٹر اور کہاں تم؟ تمھاری بات کی کیا اہمیت اور تم کیسے رپورٹ دیکھو گے؟۔ ناصر کی آواز میں غصہ تھا۔
انٹرنیٹ میری جان انٹرنیٹ۔ میں رپورٹ میں موجود اصطلاحات کو نیٹ پر دیکھوں گا، ڈاکٹر سے زیادہ معلومات مل جائیں گی۔
یار دماغ خراب نہ کر!۔ ناصر نے جھلا  کر کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا علی کیوں باولا بنا بیٹھا ہے؟۔ جبران نے فیصل کی سیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے  کہا۔
ابے یار لاجک سمجھ نہیں آرہی اور آج یہ پروگرام اپلوڈ بھی کرنا ہے مین سرور پر۔ علی ابھی بھی اسکرین پر نظریں جمائے تیز  تیز کی بورڈ پر ہاتھ مار رہا تھا۔
لا مجھے دکھا، میں تیری مدد کرتا ہوں۔ جبران نے علی کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور آرام سے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
ابے تو کیا مدد کرے گا؟ تو تو نیٹ ورکنگ کا بندہ ہے؟۔ علی نے حیرانگی اور بے یقینی سے جبران کی طرف دیکھ کر بولا۔
بھائ بہت سال پہلے پروگرامنگ کی تھی تو آئیڈیا ہے مجھے،ایک سال کا ڈپلومہ کیا تھا۔۔جبران ایسے بول رہا تھا جیسے اسنے بہت انوکھا کارنامہ انجام دیا ہو۔
جا یار دماغ نا چاٹ میرا۔ علی نے جبران کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائ آج شام میں وقت ہوگا آپ کے پاس؟۔قاسم نے مسعود سے کہا جو کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔
کیوں کیا کام ہے؟۔ مسعود اخبار پڑھتے ہوئے بولا۔
بتایا تو تھا گاڑی لینی ہے،بندے سے بات کرلی ہے اس نے شام میں بلایا ہے۔
جمال کے لے جارہے ہو؟۔ مسعود  جو اخبار طے کرچکا تھا، اسکی طرف متوجہ تھا۔
بھائ وہ PAK WHEELS پر  تصویریں دیکھ لیں تھی، انجن  ونجن سب سیٹ نظر آرہا ہے، میں ڈرائیوں کر کے دیکھ لوں گا۔
بے وقوف! تم نے پہلے گاڑی کبھی لی نہیں ہے اور بول ایسے رہے ہو کہ جیسے بڑے ماہر ہو۔ مسعود غصہ سے بولا۔
بھائ میں نے گوگل کرکے جو جو چیزیں معلوم ہونی چاہیے اسکا پرنٹ آوٹ لے لیا ہے میں دیکھ بھال سے ہی لوں گا، آپ فکر نہ کریں۔۔قاسم کی آواز میں جھلاہٹ نمایاں تھی۔
میں جمال کو فون کررہا ہوں، ٹائم بتاو وہ اسوقت آجائے گا۔ جمال کو کاڑیوں کا بہت اچھا آئیڈیا ہے وہ تمھارے ساتھ جائے گا۔ تم اپنا گوگل اپنے پاس رکھو۔۔مسعود نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔



یہ تینوں واقعات جو آپ نے اوپر پڑھے ایسی چیزیں ہم روز مرہ کے معمولات میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی اسکے ماہر سے رابطہ کرنے اور اسکی رائے لینے کو کوشش کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کا اسکول میں داخلہ کا معاملہ ہو یا بیرون ملک پڑھنے  کا، ہم مہینوں  کھوج لگاتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں، اس فیلڈ کے بندوں کو پیسے دے کر انکی رائے لیتے ہیں۔ مگر جیسے ہی بات دین کی آتی ہے ہم  اپنےآپ کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے پڑھ کر دین کے مسئلوں کا حل جاننا چاہتے ہیں۔ نماز بیٹھ کر پڑھنی ہے یا لیٹ کر، وضو صحیح ہوا یا نہیں اور  بہت سے مسائل جن کا حل  انٹرنیٹ پر یا ان لوگوں سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اسکا الف بے بھی نہیں جانتے۔
کچھ نہیں تو  کسی آن لائن عالم سے ہی معلوم کرکے خوش ہوجاتے ہیں؟

ایسا کیوں ہے؟ حالانکہ دوسرے معملات کے برعکس دین   کا معاملہ بہت حساس ہے۔ اگر گاڑی صحیح نہ ملی، یا غلط اسکول می داخلہ ہوگیا یا والد کا علاج غلط جگہ ہوگیا تو اسکا معاملہ آپ کی ذات تک یا زیادہ سے زیادہ اس دنیا تک محدود رہے گا  مگر دین کا معاملہ ایسا ہے کہ غلط ہوگیا تو یہاں تو آپ کی  مٹی پلید ہوگی ہی، وہاں آخرت میں بھی معاملہ خراب۔


خدا کے واسطے، دین کو اتنا آسان نہ لیجئےکہ اسکو گھر کی لونڈی سمجھنے لگیں۔ جس طرح اور معملات کے لئے ماہرین ہیں، عالم دین کے ماہر ہیں۔ ڈھونڈیں گے تو سینکڑوں مل جائیں گے۔ جو طلب امیگریشن کے ماہر کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے، اگر اسکا دس فیصد بھی دین کے ماہر کو حاصل کرنے میں لگائیں تو زندگی سنور جائے گی اور دنیاوی معاملات بھی صحیح  سے حل ہوجائیں گے۔