بدھ، 25 جنوری، 2023

کیا بٹ کوائن رکھنا حرام ہے؟ محترم مبشر صاحب سے چند سوالات

محترم مبشر عثمانی صاحب کا بٹ کوائن کے بارے میں مضمون پڑھا میرے اعتراضات یا سوالات درج ذیل ہیں


۔  پورے مضمون میں آپ نے تمام مثالیں غیر مسلموں یا یورپیں کی دی ہیں کہ یہ سٹہ ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انکی رائے پر  شریعت کی بنیاد پر فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟کل کلاں وہ  اس کو  جائز کہ دیں گے تو کیا علما بھی جائز کہ دے  گے؟
۔  پھر آپ نے مثال دی کی بٹ کوائن میں قرضہ لیا تو پاونڈ  میں کمی کا سامنا ہوگا تو بھائ وہ تو عام کرنسی میں بھی ہے، افراط زر کی وجہ سے جو انڈے ۱۰۰ روپے درجن تھے  وہ اب ۳۰۰ روپے مل رہے ہیں تو کیا اب کرنسی رکھنا یا  سرمایہ کاری کرنا جوا ہوگا؟
۔ آپ نے فرمایا کہ نوجوان  بٹ کوائن سے  سبزی  نہیں خرید رہے صرف انویسٹ کررے ہیں غرض  یہ جوا ہے تو بھائ لوگ تو سونا دے کر بھی  دال  سبزی نہیں لے رہے 
اور سونے کی قیمت مستحکم نہیں حتی کہ کرنسی کی بھی نہیں!!  تو کیا وہ بھی جوا ہے؟

۔  کیا  آپ یہ اعدادو شمار شئیر کرسکتے ہیں کہ  دنیا بشمول پاکستان میں کتنے  جوئے خانے، قمار خانے  بٹ کوائن کو استعمال کررہے ہیں اور کتنا مقامی کرنسی کو؟  اگر صفر سے زرا بھی زیادہ ہے تو کیا  پاکستانی کرنسی نہ استعمال کریں؟

۔  پچھلے  شمارے میں   آپ نے فرمایا کہ  بٹ کوائن ٹیکنالوجی صرف فرضی نمبر ہے نیز  یہ حلال نہیں، اس طرح  تو جب بنک سے ہم پیسہ نکلواتے ہیں آن لائن  تو وہ  بھی نمبر کا  ہیر پھیر ہے تو  وہ کیسے جائز ہے؟ کیا بنکوں میں کیش رکھا ہوتا تمام کھاتے داروں کا؟ اگر کسی بنک کے تمام کھاتے دار پیسہ نکلوانے پہنچ جائیں تو کیا بنک ان سب کو کیش دے سکتا ہے؟

۔  آپ نے غرر کی بات کی ، مجھ کو نہیں معلوم  کہ آپ فالو کرتے ہیں  یا نہیں مگر  دسمبر میں بٹ کوائن  کی مارکیٹ بالکل  Sideways میں رہی ہے  50 ڈالر کا ببھی تبدیلی  بھی  نہیں  ہورہی تھی جبکہ دوسری طرف پاکستانی روپہیہ میں بہت  fluctuation تھی تو  کیا  پھر  استعمال کرنا ناجائز ہے کیونکہ روپیہ میں زیادہ غرر تھا؟

آپ نے کہا یورپی یونیں یا بنکوں یہ کہا وہ کہا تو  سیدھی بات ہے کہ جب  کوئ   نیا نظام آتا ہے  جو  پرانے کی اجارہ داری ختم کرتا ہے تو  ایسی طرح ہوتا ہے، یہ معلو م ہونا چاہے کہ بٹ کوائن بنا کیوں؟  بٹ کوائ  موجودہ بنک کے نظام کے مخالفت میں بنا  ہے، انکی اجارہ داری ختم کرنے کو

ایک اہم بات، بٹ کوائن کی حرمت کا فیصلہ  کمپویٹر سائنسٹ نہیں بالکہ فنانس کی  فیلڈ کے لوگ کرسکتے ہیں ۔ بٹ کوائن کا مسئلہ تکنیکی نہیں معاشی ہے اور اسی تناظر میں دیکھنا چاہے



اور  آخری اور اہم بات، جب کرنسی کا رواج ہوا تھا تو اس کے خلاف بھی اسی طرح باتیں ہوتی تھیں کہ وہ جائز نہیں اور درہم و  دینار میں  لین دین کرنی چاہے آج لوگ حج کرنے بھی کرنسی میں جاتے ہیں بشمول علمائے کرام، اسی طرح جس طرح   آج سے  تیس چالیس سال پہلے  کوئ عالم ٹی وی پر  نہیں آتا تھا  یا  ویڈیو اور  اب سب کے  یو ٹیوب چینل ہیں اور سبسکرائب کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح  جس طرح بنک میں نوکری حرام تھی اور  اب  مرکزی بنک میٰں حلال اور اسلامک بنکنگ کا  نیا نام دے کر اس کو بھی جائز قرار دے دیا، اسی طرح وہ دن دور  نہیں جب علمائے کرام  اپنے مدرسے یا   یوٹیوب پر  عطیات کے لئے  بٹ کوائن کا والٹ  ایڈریس شئیر کریں گے اور  اسوقت کوئ یاد نہیں رکھے کا کہ ماضی میں کیا غلط کیا، اسی طرح جسے بنک، تصویر اور کرنسی کا  معاملہ ہے۔

والسلام

اتوار، 4 نومبر، 2018

انہیں لگا رہنے دو!


کافی عرصہ سے میں اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا مگر ہر بار سوچا کہ نہیں اسکی ضرورت نہیں اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا مگر حالات و واقعات متواتر ایسے رونما ہورہے ہیں کہ لکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم جو 
سوچ اللہ بار بار میں دماغ میں ڈال رہا ہے اور اس سے جان چھڑانے کی ناکام کوشش کررہا ہوں وہ ہو نہیں پارہی۔


پچھلے دو مہینوں میں پاکستان میں جو دو واقعات ہوئے ہیں اسکا اجتماعی ردعمل بڑا  عجیب سا آیا ہے ۔ درحقیقت ایسا ردعمل آنا معمول بن گیا ہے، ایسے ردعمل کو انگریزی میں عام اصطلاح میں نی جرک”(knee-jerk reaction)  کہتے ہیں۔
یعنی کہ کوئ واقعہ ہوا اور فورا بنا سوچے سمجھے اسکا ردعمل دکھادیا، یہ سوچ کر کہ اس سے اس مسئلہ کا علاج ہوگیا حالانکہ وقتی طور پر لگتا ہے ہوتا ایسا نہیں ہے۔
ایسا ردعمل عام طور پر اسی وقت آتا ہے جب آپ کو یہ قطعی امید نہ ہو کہ ایسا ہوگا اور وہ واقعہ ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ جاب کررہے ہیں اور کوئ امید نہیں کہ جاب ختم ہوجائے گی مگر ایک دن آتا ہے کہ  باس بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کی اب ضرورت نہیں۔ جس پر بیت رہی ہوتی ہے اسکا دماغ سن ہوجاتا ہے اور کام کرنا بند کردیتا ہے یہ سوچ کر کہ میں نے تو کچھ ایسا نہیں کیا پھر یہ کیا ہوگیا مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔ بظاہر آپ کو لگتا ہے کہ وہ واقعہ اچانک بنا کسی وجہ سے ہوا مگر درحقیقت کوئ نہ کوئ وجہ ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں اللہ نے ایسا نظام رکھا ہے کہ کوئ بھی واقعہ بنا کسی وجہ سے نہیں ہوتا۔ آپ کچھ بھی چیز اٹھالیں کوئ نہ کوئ وجہ ہوگی۔اب آپ دین کو ماننے والے ہوں یا ملحد، کوئ نہ کوئ وجہ آپکو اپنے لحاظ سے ضرور نظر آئے گی۔ مثلا مسلمانوں کے نزدیک دنیا بننے کا واقعہ کی وجہ اور ہے اور ملحد کے نزدیک کوئ اور مگر اس پر کسی کو انکار نہیں کہ واقعہ ہوا یعنی دنیا بننے کا۔
نسیم طالب جو لبنانی امریکن عیسائ ہیں اور پیسے کے لحاظ سے اسٹاک ٹریڈر کی ایک قسم کوانٹہیں وہ اپنی مشہور کتاب (Fooled by Randomness) میں متبادل تواریخ کا ذکر کرتے ہیں.نسیم کہتے ہیں کہ جو بھی واقعہ ہوتا ہے  اسکے متبادل واقعات جو ظہور پذیر نہیں ہوئے وہ گنے نہیں جاسکتے۔ مثلا میں اسوقت یہ پوسٹ لکھ رہا ہو۔ متبادل اسکے بہت کچھ کرسکتا تھا۔ ہوسکتا تھا کہ میں کوئ کتاب پڑھ رہا ہوں، یا ای میل کررہا ہوں، غرض ممکنات بہت ہیں۔ اب وجو واقعہ ظہور پذیر ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ماننا کہ ہمیں غیب کا نہیں پتہ مگر اللہ نے ہمیں اتنی صلاحیت ضرور دی ہے کہ جو ہوسکتا ہے اسکی تیاری کی جائے اور تیاری کے لئے ماضی کی تجربات اور مشاہدات کام آسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی کی جاب اچانک چلی جائے، اگر اسکو یہ علم کے کہ جاب چھوٹ بھی سکتی ہے کیونکہ کمپنی کے حالات ٹھیک نہیں یا باس سے بات نہیں بن رہی تو پہلے سے وہ متبادل کی تیاری کرے گا۔ اگر تیاری ہوگی تو ہوسکتا ہے کہ وہ واقعہ نہ ہو جس کے اچانک ہونے کا خدشہ ہے یعنی کی جاب خود چھوڑ دی اور کہیں اور اچھی جگہ چلا گیا یا پھر اگر وہ واقعہ ہونا بھی ہو تو اسکی تیاری ہو۔

اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد ان دو واقعات پر بات کرنا ہے جس کا پاکستان میں بڑا چرچا ہے۔ ایک عاطف میاں قادیانی کو بحیثیت معاشی مشیر لانا اور دوسرا آسیہ مسیح کی سزا معطلی۔دونوں موقعوں پر حواس باخگتی کا عالم ہے۔عاطف کو جب لایا گیا تو ایک شور برپا تھا کہ قادیانی کو حکومت میں نہیں رہ سکتے یہ وہ حالانکہ آئین میں اسکی ممانعت تھی نہیں۔ اب اوپر جو بتایا اسکی رو سے جب تہتر کے آئین میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا اور حکمران کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا تو اسوقت جن لوگوں نے یہ فیصلہ لکھا انکو آئین میں یہ بھی شق ڈالنی چاہیے تھی کہ قادیانیوں کو ریاست کے کسی معاملہ میں نہ شامل کیا جائے، یہ اسوقت نہیں سوچا گیا اور پھر کئ سالوں بعد اسکو استعمال کیا گیا۔ جب پچھلوں نے متبادل تواریخ اور واقعات کو مدنظر نہیں رکھا تو اسمیں قصور قادیانیوں کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا جن سے یہ غلطی مرتکب ہوئ۔ وہ یا تو اس مسئلہ کی سنگینی نہیں جانتے تھے یا پھر انکو یہ آئیڈیا نہیں تھا کہ قادیانی ریاستی امور میں گھسیں گے یا پھر یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان اتنے سہم جائیں گے کہ ایک قادیانی کے آنے سے کانپنے لگیں گے۔ واللہ عالم۔



یہی سب آسیہ کہ توہین رسالت (ص) اور پچھلے اس جیسے واقعات کے ساتھ ہوا۔ جب توہین کی شقیں آئین میں شامل کی جارہی تھیں تو جتنے ممکنات واقعات ہوسکتے تھے انکا کچھ حصے کے بارے میں تدبر اور رائے سے انکا جواب دینا چاہیے تھا۔ مثلا،، زیادہ تر ایسے واقعات گاوں دیہات میں ہوئے ہیں اور گاوں میں تعلیم کا فقدان ہے، اگر ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا تو نہ صرف ایسے واقعات  نہ ہوتے تو اور اگر ہوتے تو انکی صحیح جانچ پڑتا ل ہوتی۔
ہوا کیا؟ وہی جو اوپر عرض کیا، غیر سوچا سمجھا ردعمل آیا، شہر کے شہر بند ہوئے اور لوگ متاثر ہوئے۔ عام آدمی کی تو خیر ہے، دینی اور غیر دینی دونوں طبقوں کے روسا کا ردعمل بھی عام لوگوں کی طرح تھا،، جن لوگوں کی طرف مجھے جیسے عام لوگ دیکھ رہے تھے وہ بھی  ایک لاچارگی اور حواس باخگتگی کے عالم میں تھے۔ کیوں بھئ! جب آپ کو اللہ نے علم دیا، سمجھ بوجھ دی تو حکمت سے کیوں نہیں کام لیا اور اب اس طرح کے ردعمل سے کیا تاثر چھوڑا جارہا ہے؟ وہی جو سامنے والے ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں، ،پرتشدد اور حکمت سے عاری۔ اکابر جو ہیں وہ بھی کچھ صحیح راہ نہیں جانتے یا بتا نہیں پارہے اور عام آدمی تو سڑکوں پر، نتیجہ یہ کہ دنیا کو پیغام  کہ ہم کو اگر کوئ اختلاف ہو تو ہم اسکا حل صرف لڑ جھگڑ کر اور جذباتی ہوکر نکالتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں کہ جب کسی قوم اور کمیونٹی کے اکابر سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور حکمت عملی تیار کرتے ہیں کہ آئیندہ ایسا کیا کیا جائے کہ ایسے واقعات نہ ہوں۔

ہو کیا رہا ہے؟

اسکے لئے ذرا نہیں بلکہ کافی پیچھے جانا پڑے گا۔ مجھے یاد ہے کہ سن ۸۰ کی دہائ میں جب ہم چھوٹے تھے تو چوائسز اور آسائشیں کم ہونے کی وجہ سے زندگی کافی پرسکون تھی۔ شائد میں بچہ تھا اسلئے ایسا سوچوں مگر جب آج کے بچوں کا موزانہ اپنے زمانے سے کرتا ہوں تو اسمیں زندگی کی گہما گہمی اتنی نہ تھی، نتیجا دماغ زیادہ تر وقت پرسکون۔ بچے اور بڑے ایک دوسرے کو وقت دیتے تھے اور بچوں کی تربیت پر وقت صرف ہوتا تھا۔ کیونکہ ٹی وی اتنا عام تھا نہیں،۔ شام چار سے رات گیارہ تک صرف ٹی وی ہوتا تھا۔ عورتیں جلد صبح کام کاج سے فارغ اور پھر آس پاس کی خبر رکھنا وغیرہ۔ یہی حال مردوں کا تھا۔ فاسٹ فارورڈ کریں تو ہم پر اچانک کئ تاپڑ توڑ حملہ ہوئے۔بجلی گیس وغیرہ کی کمی، بلوں کی زیادتی، روپے کی قدر گرنا وغیرہ۔ جب یہ سب ہوا تو گھر کے اخراجات بڑھے۔ سونے پہ سہاگہ کہ ٹی وی پر رنگا رنگ چیزوں نے لوگوں کی خواہشات کو ضروریات میں تبدیل کردیا جسکی وجہ سے مرد ڈبل نوکریاں کرنے لگے، عورتوں کے پاس بھی وقت نہ رہا کہ انکو نوکری کرنی تھی۔ آخر کار اسٹیٹس بھی تو قائم رکھنا ہے۔ غرض میڈیا، تعلیم، کنزیومر گڈز چہار سو ایسے حملہ ہوئے کہ جو لوگ پہلے غیروں کی خبر ہوتی تھی انکو اپنوں کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ رہی سہی کسر ملکی حالات نے پوری کردی۔ غرض ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔

سوال یہ کہ کیا سب بس ایسے ہی ہوریا ہے؟ کیا ایسے ہونا بس لکھا تھا کہ جب ہم اگلی صدی میں داخل ہوں گے تو ہر طرف شور برپا ہوگا؟ نہیں ایسا نہیں۔ یہ سب بس ایسے ہی نہیں ہورہا بلکہ ایسا اسٹیج تیار کیا گیا کہ ایسا ہو۔ کون کررہا ہے؟ وہی جن کو ہم صبح و شام گالیاں بھی دیتے ہیں اور دم بھی بھرتے ہیں۔ اپنے وہی یہود و نصاری۔ اب گالی دیں یا انکے دم بھریں، دونوں صورتوں میں ہم خود کچھ نہیں کرتے۔ کہا اور یہ جا وہ جا۔ کہنےکا مقصد یہ کہ ہم پر ایک ایسی جنگ مسلط ہوئ ہے جس میں یہ نہیں معلوم کہ گولی کہاں سے آرہی ہے اور کہاں لگے گی، ہم بس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں کررہے ہیں۔ ہمارے اذہان پر جو حملہ ہوا یے وہ اتنا خطرناک ہے کہ اسکا خمیازہ ہم عشروں سے بھگت رہے ہیں او ر بھگتیں گے تا وقتہ کہ کچھ سوچنا شروع کریں۔ اس نفسیاتی و معاشی جنگ کو بندوقوں سے نہیں جیتا جاسکتا۔

ہونا کیا چاہیے؟

چند گزارشات ہیں کیونکہ یہ موضوع چند لائنوں میں پورا نہیں کیا جاسکتا۔ میں موٹی موٹی چند باتیں عرض کئے دیتا ہوں جو مجھ ناچیز کے ذہن میں آئیں ہیں۔

  •  سب سے پہلے تو دماغ سے یہ سوچ نکالنی ہوگی کہ ہم لاچار و مجبور ہیں۔ جب انسان کا دماغ پہلے سے ہی سوچ لے کہ وہ بے بس ہے تو وہ کچھ نہیں کرسکتا لہذا عوام و خواص ہر ایک کو یہ رونا دھونا ترک کرنا ہوگا کیونکہ اب یہ نوبت ہے کہ ہر مسجد و گھر سے یہود و نصاری کو گالیاں دی جاتیں ہیں مگر کچھ نہیں ہوتا اور کہاں ایک وقت تھا کہ مسلمان فوج نے صرف مسواک شروع کیا اور دشمن بھاگ گیا۔ لہذا یہ لاچارگی ختم کرنی ہوگی۔ دنیا کی قوموں پر مصیبتیں آئ ہیں مگر انہوں نے شکایتوں کے انبار نہیں لگائے بلکہ ان میں سے جو سب سے زیادہ قابل تھے انہوں نے آنے والی نسلوں کے لئے حکمت عملی تیار کی۔ ہمارے ذہن میں جان بوجھ کر مایوسی پھیلائ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جو بھی ہورہا ہے، وہ تو ہورہا ہے، ردعمل میں ہم صرف بین اور رونا دھونا ہی کرتے ہیں۔ کیوں بھئ! کیا ہم اپنی تاریخ یکسر فراموش کرگئے ہیں کہ ہم صرف شرمندہ شرمندہ سے رہتےہیں۔ دوسروں کے برعکس ہماری ماضی تو بہت اچھا تھا۔ دوسروں نے ماضی خراب ہونے سے سبق سیکھا، ہم نے ماضی کو صرف قصوں میں تبدیل کردیا اور صرف افلاس کے گن گانے میں گذار دیا۔دوسرے جو تھے انہوں نے حال بھی اچھا کرلیا اور مستقبل بھی۔
  • ایسی کھیپ تیار کی جائے جو زندگی کے وہ شعبہ جو عوام پر اپنا دور رس اثر رکھتے ہیں اسکے ناصرف ماہر ہوں بلکہ وہ خود ایسے اذہان تیار کرسکیں جو مستقبل میں ہونے والی متبادل تواریخ کی بنیاد ہر ہونے والے واقعات کو روک سکیں۔ اگر روک نہ سکیں تو کم از انکے پاس وہ تمام آلات و منصوبہ ہوں جو عام لوگوں کو متاثر نہ کرسکیں۔
بس یہ دو باتیں تھیں، تفصیل میں جایا گیا تو صٖفحے کے صفحے بھر جائیں گے اور ہر کوئ اس میں دلچسپی بھی نہیں رکھے گا۔ کبھی کبھی زہر کا تریاق زہر سے ہی نکالنا ہوتا۔ جب تک جنگ میں دشمن سامنے تھے بندوقوں سے مقابلہ آسان تھا۔ اس نادیدہ دشمن کا مقابلہ انہی االات سے کرنا ہے جو وہ استعمال کرتے ہیں۔ اب بھی عقل نہیں آئ تو داستان نہ ہوگی داستانوں میں کیونکہ "وہ" تو یہی چاہتے ہیں کہ انہیں لگا رہنے دو! انکے آس پاس اتنا شور و گرد رکھو کہ پتہ ہی نہ چلے کہ کون وار کررہا ہے۔ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ ورنہ آپکی مرضی کہ اسی میں وقت گزار دیں کہ آسیہ نے توہین کی یا نہیں کی یا ایف آئ ار غلط، یہ وہ یا قادیانی ہم پر نافذ ہوگئے۔ فیصلہ آپکا ہے۔

وما علينا الا البلاغ



ہفتہ، 12 مارچ، 2016

جنازے کا انتقام

"یہ تو کسی ناول کا نام ہوسکتا ہے"۔ بالکل ہوسکتا ہوگا مگر فی الحال میں میں نہ اشتیاق سیریز کی یاد منارہا ہوں اور نہ ہی کوئ ناول کا نام تجویز کررہا ہوں۔ یہ نام تو ممتاز قادری کے جنازے کے ردعمل کو دیکھ کر سامنے آیا جسکو مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے محظوظ کیا۔

 اس بات کو قریبا ہفتہ ہونے سے ہے مگر ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک جنازہ سے اتنی بدحواسی کیوں اور ہمارا لبرل طبقہ اسکو ہضم تو دور، اسکا چکھا ہی کیوں کہ ابتک ردعمل سامنے آرہا ہے؟

 پچھلے چند دنوں میں تدفین کے بعد جو ردعمل آیا وہ میرے نزدیک مضحکہ خیز تو تھا ہی، قابل ترس بھی بن گیا۔ ایک بات تو طے تھی کی مجھ سمیت کسی نے یہ توقع نہیں کی تھی کے لوگ اتنی کثیر تعداد میں حصہ لیں گے کہ مغربی ذرائع ابلاغ بھی کم از کم اسکی تعداد لاکھ بتارہے تھے۔ اب مغربی ابلاغ کے متعلق مشاہدہ ہے کہ جو خبر انکی مرضی کے متعلق نہ ہو تو اس میں وہ اعداد شمار کم ہی بتاتے ہیں لہذا جو بھی انہوں نے فگر بتائ اسکو پانچ چھ سے تو ضرب دے ہی دیں۔

 چونکہ عام زندگی میں تو عوام الناس کا ردعمل سامنے آچکا تھا، انٹرنیٹ کی اقلیتی دنیا میں صورتحال مختلف تھی۔ مزے مزے کی چیزیں پڑھنے کو ملیں۔ مثلا امام حنبل رح کا مشہور زمانہ جملہ "ہمارے جنازے تمھارے اور ہمارے درمیاں فیصلہ کریں گے"، کو ہمارے اسلامی بھائیوں نے دل کھول کر شوشل میڈیا پر شیئر کیا، چلیں وہ انکا موقف اور اسکا پس منظر بھی تھا، ہنسی تو اسوقت چھوٹی جب لبرل طبقہ جو اسوقت جنازے کی شرکا کی تعداد سے ہی مدہوش تھا، اسنے اس بیان کو اپنے دل و دماغ پر سوار کرلیا۔ کئ پڑھے لکھے حضرات گوگل کھول کر دنیا کے بڑے جنازے سرچ کرنے لگے۔ ایک صاحب نے دنیا کے دس بڑے جنازوں کا لنک پوسٹ کردیا جبکہ بہت سے کہنے لگے کہ اس سے بڑا جنازے تو کشور کمار، رفیع اور بال ٹھاکرے کے تھے۔ چلیں یہ تو کچھ نہیں، جنازے نے بہت سے لوگ تو "خلافت" کے اصول کی باتیں کرنے لگے۔ ایک موصوف بولے کے تعداد معنی تھوڑی رکھتے ہیں۔ ایک صحافی خاتون نے لکھا کہ اگر پچاس لاکھ لوگ کسی بیوقوفی کو صحیح سمجھیں تو تب بھی وہ بے وقوفی ہوتی ہے۔ یعنی جمہوریت کا اصل "حسن" جو کہ تعداد کو فوقیت دیتا ہے اسکو یکسر نظر انداز کردیا۔ یہ وہی لوگ ہیں خلافت کے برعکس جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر تو میں بھی سناٹے میں رہا کہ کیا واقعی میں وہی پڑھ رہا ہوں جو وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں یا کوئ اور بات؟ میں اسکی تفصیل میں نہیں جاوں گا کہ امام حنبل نے ایسا کیوں کہا اور کس کا جنازہ جنتی کا ہے اور کس کا دوزخی مگر، خدا کے بندے تقابل تو صحیح کرو! تم خربوزے کا موازنہ آم سے کرو اور اس پر فخر کرو تو اس پر سامنے والا صرف ہنس سکتا ہے۔ بات تو تب ہوتی جب تاثیر کے جنازے کا مقابلہ ممتاز قادری کے جنازے سے کیا جاتا۔ یقینا ایسے موازنے اخباروں اور انٹرنیٹ پر تو ہوسکتے ہیں، عام زندگی میں نہیں کیونکہ اگر آپ کسی خاندان کی محفل میں بھی ایسی موازنے کریں گے تو لوگ صرف آپ پر ہنسیں گے۔ بھئ یہ تو سادہ سا عوامی ریفرنڈم تھا اور کچھ نہیں۔ گوگل کے ہیڈکوارٹر میں بھی کھلبلی مچ گئ کہ پاکستان پر ایسی کیا آفت آگئ ہے کہ لوگ جنازوں کو تلاش کررہے ہیں؟ گورے بیچارے ویسی ہی ڈرے ہوئے ہیں۔ بجائے کے سائنسی مضامین اور ایجادات وغیرہ کے بارے میں جستجو کی جائے ہمارے لبرل طبقہ جنازوں کی کھوج میں ہے۔

 بہرحال صورتحال بڑی عجیب سی ہوگئ ہے اور لبرل طبقہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ جو کام پچھلے پندرہ سالوں میں نصاب کی تبدیلی، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعہ کیا گیا، بظاہر لگتا ہے ایک جنازے نے اس کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ سیکولر بیانیہ کا بنیان تار تار ہوگیا ہے۔ ویسے بھی جو بیانیہ یا نظریہ ایک تدفین سے ڈامل ڈول ہوجائے اسکی کامیابی کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے آفریدی سے کرکٹ میں۔ تدفین والے دن ملک کے مقتدر حلقوں میں ایک سوال بار بار پوچھا جارہا ہوگا، "کتنے آدمی تھے؟" اور جواب ملنے پر ٹشو کے ڈبے کے ڈبے خالی ہوگئے ہوں گے۔

بدھ، 20 جنوری، 2016

سوال

 سوال کرنا اللہ کی طرف سے انسان کو ایک ایسی انوکھی اور بہترین نعمت عطا کی گئ ہے جس کا غلط اور صحیح
دونوں طرح کا استعمال انسان کو کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔

سوال کرنا ان بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہے۔سوال دماغ میں اسی وقت ابھرتا ہے جب انسان کچھ سوچتا ہے، وہ سوچ یا تو کسی مشاہدہ کے پیش خیمہ ہوتی ہے یا تجربہ کا۔

مجھے نہیں معلوم اہل علم اور دانشور کیا وجہ قرار دیتے ہیں، نہ ہی مجھے کھو ج کی ضرورت ہے مگر میرے نزدیک کسی قوم کا عروج و زوال کا بہت حد تک تعلق سوال کرنے یا نہ کرنے سے ہے۔ مسلمان جب تک تجسس میں رہا اسکے دماغ میں سوال جنم لیتے رہے۔ اسنے سائنس، فلسفہ، نفسیات، فلکیات، غرض بہترے علوم میں کامیابی حاصل کی۔ جب سوال کرنا بند کیے تو علم کا دروازہ بھی بند ہوگیا۔ آج کے دور میں چاہے دینی علم ہو یا دنیاوی، سوال کرنے والے کو خاموش کرادیا جاتا ہے۔ خاموش کرانے کے کئ وجوہات ہوتی ہیں جس میں جانا ٖفضول ہے مگر ایک بنیادی وجہ اس    سوال کا جواب نہ ہونا ہے۔ کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ استاد و والدین ایک بچے کو  خاموش کروانے کے لئے ڈانٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ابھی چھوٹے ہو، شش بچے اتنے سوالات نہیں کرتے، وغیرہ کرتے ہیں۔ ایک طرح سے بڑے اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے بچوں کو ڈانٹ دیتے ہیں۔ اچھا جاہل ہونا بری بات نہیں، جہل پر اصرار کرنا ضرور بری بات ہے۔ کسی کی ذہانت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی طرف سے اٹھنے والے سوالات سے لگائیں، ایک عام آدمی بھی کہ  یہ بندہ کتنا ذہین ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کے سوالات کئے جاسکتے ہیں، جہاں تک میں نے پڑھا ہے، دین میں سوال کرنے کی کوئ ممانعت نہیں، چاہے وہ خدا کے وجود کے بارے میں ہوں یا چاند ، سورج کے خالق کے بارے میں جاننے کے۔ سوال انسان کے دماغ کو ایک تشفی دیتے ہیں اور قرآن میں اسکے بارے میں ذکر بھی ہے۔


اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے
(Quran 2:260) 

اس سورت میں ایک جلیل القدر پیغمبر جسکی آیندہ آنے والی نسلوں تین عظیم مذاہب کی بنیاد رکھی، وہ صرف تشفی قلب کی خاطر اللہ سے سوال کررہا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ، اسکی مخلوق اور اسکے کاموں کے بارے میں سوال کرنا دین میں منعی نہیں۔ ہاں البتہ جب تک ایمان کی حالت میں ہے تو کسی چیز کو محض اس لئے رد کردینا کے جواب   نہیں ملا یا پھر عقل نے مطمئین نہیں کیا، وہ غلط ہے۔ جیسا کہ اسی قرآن میں اللہ نے روح  کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو فرمایا:

اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے
(Quran 17:85) 

ادھر بھی اللہ نے کوئ ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کسی کو کافر قرار دیا، صرف یہ کہ دیا کہ انسان کو اسکا علم نہیں عطا کیا گیا۔

صرف قرآن ہی نہیں، ایک بہت ہی مشہور اور طویل حدیث جس کو حدیث جبرائیل بھی کہا جاتا ہے وہ صرف ان سوالات   اسے بھری پڑی ہے ۔ اگر اس حدیث کو غور سے پڑھیں تو اسمیں وہ سوالات کئے گئے ہیں جن کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل دونوں کا تھا، مقصد حاضرین رضی اللہ عنہا اور آنی والی نسلوں کو دین سکھانا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ سوال کا طریقہ ہی کیوں اپنایا گیا؟ وہ تمام باتیں  ایک بیان اور بہت سی دوسری حدیثوں کی طرح نثر کی شکل میں بھی سمجھائ جاسکتی تھیں مگر امت کو یہ بھی سکھانا تھا کہ کس طرح سوالات کرکے علم میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے :

یہ کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں  
Quran 38:29 
ہم خاک غور کریں گے، ہم تو سوالات بھی نہیں کرتے اور نہ غور، چاہے دین کو معاملہ ہو یا  دنیا کا، بس جو اکابر نے کہ دیا، اندھوں کی طرح اسکو من و عن تسلیم کرلیا۔ ہم اتنے کاہل ہیں کہ یہ بھی سوچنا گوارہ نہیں کرتے کہ ہمارے اکابرین نے ایسا اگر سوچا تو کیوں سوچا، یہ سوچنا تو دور کی بات کی اکابرین نے بھی تو سوالات اٹھائے۔

سوال کریں اور بہت سے کریں۔ ضروری نہیں کسی کو اپنے سامنے زبردستی بٹھاکر سوالات شروع ہوجائیں، پتہ چلا کہ مجھ سے پتہ چل رہا ہے کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی سے سوالات کر کر کے اسے مار دیا۔ بھائ آپ اپنے سے بھی سوال کرسکتے ہیں۔ بہت سے علوم کو ترقی اسی وقت ملی جب انسان نے اپنے سے سوال کیے اور انکے جوابات جاننے کے لئے جت گیا۔ اگر آپ کا بچہ سوالات کرتا ہے تو اسے ڈانٹیں نہیں بلکہ اسکی قدر کرییں۔ کسی سوال کا جواب نہیں معلوم تو اس سے کھلے طور پر کہ دیں کہ بیٹا ابھی معلوم نہیں، میں آپ کو معلوم کرکے بتادوں گا. بقول کنفیوشش کے:

ایک شخص جو سوال کرتا ہے وہ صرف چند لمحوں کے لئے بے وقوف ہوتا ہے ، ایک شخص جو سوال نہی کرتا وہ عمر بھر بے وقوف رہتا ہے۔



اتوار، 17 جنوری، 2016

ماہر

کیا بات ہے ناصر پریشان نظر آرہے ہو؟۔نعیم نے ناصر کو دیکھ کر کہا جو کافی پریشان بیٹھا تھا اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
کچھ نہیں بس۔۔ کل رات ابو کی طبیعت اچانک خراب ہوگی تو ایمرجنسی میں ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگے۔ وہاں پر پتہ چلا کہ انکو دل کا دورہ پڑا تھا۔ صبح آج ایک اسپیلشٹ کو چیک اپ کروایا تو پتہ چلا ابو کے دو شریانیں بلاک ہیں ۔ ناصر کافی گھبرایا ہوا تھا۔ نعیم نے اسکو تھپکی دی۔
حوصلہ کرو کچھ نہیں ہوگا۔کیا انکل پہلے سے بیمار تھے؟
نہیں وہ بلکل ٹھیک تھے ایسا کچھ نہیں تھا
یار ڈاکٹر جھوٹ بول رہے ہیں، تم مجھے رپورٹ کی کاپی دو میں خود پڑھ کر دیکھتا ہوں۔ نعیم نے ناصر سے کہا۔
تم؟ ناصر حیرانگی سے بولا؟
تم تو انجینئر ہو۔ تم بھلا کیا جانو؟۔ نعیم  ذور دے کر بولا۔
بھائ نویں جماعت میں بائیلوجی میں پچانوے نمبر آئے تھے۔ نعیم   کا انداز فخریہ تھا۔
تم پاگل تو نہیں ہو؟ کہاں ایک مشہور دل کا ڈاکٹر اور کہاں تم؟ تمھاری بات کی کیا اہمیت اور تم کیسے رپورٹ دیکھو گے؟۔ ناصر کی آواز میں غصہ تھا۔
انٹرنیٹ میری جان انٹرنیٹ۔ میں رپورٹ میں موجود اصطلاحات کو نیٹ پر دیکھوں گا، ڈاکٹر سے زیادہ معلومات مل جائیں گی۔
یار دماغ خراب نہ کر!۔ ناصر نے جھلا  کر کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا علی کیوں باولا بنا بیٹھا ہے؟۔ جبران نے فیصل کی سیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے  کہا۔
ابے یار لاجک سمجھ نہیں آرہی اور آج یہ پروگرام اپلوڈ بھی کرنا ہے مین سرور پر۔ علی ابھی بھی اسکرین پر نظریں جمائے تیز  تیز کی بورڈ پر ہاتھ مار رہا تھا۔
لا مجھے دکھا، میں تیری مدد کرتا ہوں۔ جبران نے علی کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور آرام سے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
ابے تو کیا مدد کرے گا؟ تو تو نیٹ ورکنگ کا بندہ ہے؟۔ علی نے حیرانگی اور بے یقینی سے جبران کی طرف دیکھ کر بولا۔
بھائ بہت سال پہلے پروگرامنگ کی تھی تو آئیڈیا ہے مجھے،ایک سال کا ڈپلومہ کیا تھا۔۔جبران ایسے بول رہا تھا جیسے اسنے بہت انوکھا کارنامہ انجام دیا ہو۔
جا یار دماغ نا چاٹ میرا۔ علی نے جبران کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائ آج شام میں وقت ہوگا آپ کے پاس؟۔قاسم نے مسعود سے کہا جو کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔
کیوں کیا کام ہے؟۔ مسعود اخبار پڑھتے ہوئے بولا۔
بتایا تو تھا گاڑی لینی ہے،بندے سے بات کرلی ہے اس نے شام میں بلایا ہے۔
جمال کے لے جارہے ہو؟۔ مسعود  جو اخبار طے کرچکا تھا، اسکی طرف متوجہ تھا۔
بھائ وہ PAK WHEELS پر  تصویریں دیکھ لیں تھی، انجن  ونجن سب سیٹ نظر آرہا ہے، میں ڈرائیوں کر کے دیکھ لوں گا۔
بے وقوف! تم نے پہلے گاڑی کبھی لی نہیں ہے اور بول ایسے رہے ہو کہ جیسے بڑے ماہر ہو۔ مسعود غصہ سے بولا۔
بھائ میں نے گوگل کرکے جو جو چیزیں معلوم ہونی چاہیے اسکا پرنٹ آوٹ لے لیا ہے میں دیکھ بھال سے ہی لوں گا، آپ فکر نہ کریں۔۔قاسم کی آواز میں جھلاہٹ نمایاں تھی۔
میں جمال کو فون کررہا ہوں، ٹائم بتاو وہ اسوقت آجائے گا۔ جمال کو کاڑیوں کا بہت اچھا آئیڈیا ہے وہ تمھارے ساتھ جائے گا۔ تم اپنا گوگل اپنے پاس رکھو۔۔مسعود نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔



یہ تینوں واقعات جو آپ نے اوپر پڑھے ایسی چیزیں ہم روز مرہ کے معمولات میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی اسکے ماہر سے رابطہ کرنے اور اسکی رائے لینے کو کوشش کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کا اسکول میں داخلہ کا معاملہ ہو یا بیرون ملک پڑھنے  کا، ہم مہینوں  کھوج لگاتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں، اس فیلڈ کے بندوں کو پیسے دے کر انکی رائے لیتے ہیں۔ مگر جیسے ہی بات دین کی آتی ہے ہم  اپنےآپ کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے پڑھ کر دین کے مسئلوں کا حل جاننا چاہتے ہیں۔ نماز بیٹھ کر پڑھنی ہے یا لیٹ کر، وضو صحیح ہوا یا نہیں اور  بہت سے مسائل جن کا حل  انٹرنیٹ پر یا ان لوگوں سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اسکا الف بے بھی نہیں جانتے۔
کچھ نہیں تو  کسی آن لائن عالم سے ہی معلوم کرکے خوش ہوجاتے ہیں؟

ایسا کیوں ہے؟ حالانکہ دوسرے معملات کے برعکس دین   کا معاملہ بہت حساس ہے۔ اگر گاڑی صحیح نہ ملی، یا غلط اسکول می داخلہ ہوگیا یا والد کا علاج غلط جگہ ہوگیا تو اسکا معاملہ آپ کی ذات تک یا زیادہ سے زیادہ اس دنیا تک محدود رہے گا  مگر دین کا معاملہ ایسا ہے کہ غلط ہوگیا تو یہاں تو آپ کی  مٹی پلید ہوگی ہی، وہاں آخرت میں بھی معاملہ خراب۔


خدا کے واسطے، دین کو اتنا آسان نہ لیجئےکہ اسکو گھر کی لونڈی سمجھنے لگیں۔ جس طرح اور معملات کے لئے ماہرین ہیں، عالم دین کے ماہر ہیں۔ ڈھونڈیں گے تو سینکڑوں مل جائیں گے۔ جو طلب امیگریشن کے ماہر کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے، اگر اسکا دس فیصد بھی دین کے ماہر کو حاصل کرنے میں لگائیں تو زندگی سنور جائے گی اور دنیاوی معاملات بھی صحیح  سے حل ہوجائیں گے۔

پیر، 25 اگست، 2014

ہیلو ورلڈ


اور بلاآخر ہم نے فیصلہ کرلیا کے ہم بھی اردو میں بلاگنگ شروع کریں گے۔اصل میں تو سوچا ہوا تو عرصہ سے تھا مگر وقت اور صلاحیت دونوں کی کمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ ایک عرصہ تک انگریزی میں بلاگنگ کی اور خوب کی اور اتنے مشہور ہوئے کہ بی بی سی ریڈیو کے لئے گوروں کو ۵ منٹ کا انٹرویو بھی دیا مگر یہ وہ زمانہ تھا جس کے لئے چچا غالب نے فرمایا تھا کہ: جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن، یعنی بلکل فارغ البال تھے۔ اب ۵ صدیوں، سوری ۵ سال پہلے شادی ہوگئ تو نہ فارغ رہے نہ بال۔ ہمیں اردو لکھنے کا کوئ تجربہ نہٰں تھا، خدا گواہ ہے آخری بار اردو اپنے نکاح نامے میں استعمال کی۔ گذشتہ سال کراچی کے ایک بہت بڑے دینی تعلیمی ادارے کے لئے اردو میں سافٹ ویئر بنانے کا موقع ملا تو باقائدہ اردو کی لکھائ کا اتفاق ہوا۔ شروع میں تو گوگل کا رومن اردو سے اردو رسم الخط میں تبدیل کرنے کا ٹول استعمال کیا مگر آہستہ آہستہ کی بورڈ استعمال کرنے آگیا اور باقائدہ اردو میں سماج رابطوں کی ویب سائٹ پر اردو میں تحریر کرنے لگے۔ 

 یہ بلاگ اس موقع پر شروع کی جارہی ہے جب پاکستان نازک موقع سے گزر رہا ہے، ویسے کب نہیں گزرا؟ بس ڈرانے کے اور توجہ حاصل کرنے کے طریقہ ہیں۔ سوچا کیوں نہ ہم بھی یہی بہانہ استعمال کرکے اپنے مقصد کو عملی پاجامہ پہنایئں۔ یہ کسی خاص مقصد کے لئے نہیں ہوگی، ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مکس پلیٹ ہوگی۔ بس فرق یہ کہ اپنی مادری زبان میں ہوگی۔ اللہ معلوم یہ تجربہ کیسا رہے مگر کافی سالوں بعد کچھ بکنے کا موقع مل رہا ہے لہذا ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے