بدھ، 20 جنوری، 2016

سوال

 سوال کرنا اللہ کی طرف سے انسان کو ایک ایسی انوکھی اور بہترین نعمت عطا کی گئ ہے جس کا غلط اور صحیح
دونوں طرح کا استعمال انسان کو کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔

سوال کرنا ان بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہے۔سوال دماغ میں اسی وقت ابھرتا ہے جب انسان کچھ سوچتا ہے، وہ سوچ یا تو کسی مشاہدہ کے پیش خیمہ ہوتی ہے یا تجربہ کا۔

مجھے نہیں معلوم اہل علم اور دانشور کیا وجہ قرار دیتے ہیں، نہ ہی مجھے کھو ج کی ضرورت ہے مگر میرے نزدیک کسی قوم کا عروج و زوال کا بہت حد تک تعلق سوال کرنے یا نہ کرنے سے ہے۔ مسلمان جب تک تجسس میں رہا اسکے دماغ میں سوال جنم لیتے رہے۔ اسنے سائنس، فلسفہ، نفسیات، فلکیات، غرض بہترے علوم میں کامیابی حاصل کی۔ جب سوال کرنا بند کیے تو علم کا دروازہ بھی بند ہوگیا۔ آج کے دور میں چاہے دینی علم ہو یا دنیاوی، سوال کرنے والے کو خاموش کرادیا جاتا ہے۔ خاموش کرانے کے کئ وجوہات ہوتی ہیں جس میں جانا ٖفضول ہے مگر ایک بنیادی وجہ اس    سوال کا جواب نہ ہونا ہے۔ کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ استاد و والدین ایک بچے کو  خاموش کروانے کے لئے ڈانٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ابھی چھوٹے ہو، شش بچے اتنے سوالات نہیں کرتے، وغیرہ کرتے ہیں۔ ایک طرح سے بڑے اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے بچوں کو ڈانٹ دیتے ہیں۔ اچھا جاہل ہونا بری بات نہیں، جہل پر اصرار کرنا ضرور بری بات ہے۔ کسی کی ذہانت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی طرف سے اٹھنے والے سوالات سے لگائیں، ایک عام آدمی بھی کہ  یہ بندہ کتنا ذہین ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کے سوالات کئے جاسکتے ہیں، جہاں تک میں نے پڑھا ہے، دین میں سوال کرنے کی کوئ ممانعت نہیں، چاہے وہ خدا کے وجود کے بارے میں ہوں یا چاند ، سورج کے خالق کے بارے میں جاننے کے۔ سوال انسان کے دماغ کو ایک تشفی دیتے ہیں اور قرآن میں اسکے بارے میں ذکر بھی ہے۔


اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے
(Quran 2:260) 

اس سورت میں ایک جلیل القدر پیغمبر جسکی آیندہ آنے والی نسلوں تین عظیم مذاہب کی بنیاد رکھی، وہ صرف تشفی قلب کی خاطر اللہ سے سوال کررہا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ، اسکی مخلوق اور اسکے کاموں کے بارے میں سوال کرنا دین میں منعی نہیں۔ ہاں البتہ جب تک ایمان کی حالت میں ہے تو کسی چیز کو محض اس لئے رد کردینا کے جواب   نہیں ملا یا پھر عقل نے مطمئین نہیں کیا، وہ غلط ہے۔ جیسا کہ اسی قرآن میں اللہ نے روح  کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو فرمایا:

اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے
(Quran 17:85) 

ادھر بھی اللہ نے کوئ ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کسی کو کافر قرار دیا، صرف یہ کہ دیا کہ انسان کو اسکا علم نہیں عطا کیا گیا۔

صرف قرآن ہی نہیں، ایک بہت ہی مشہور اور طویل حدیث جس کو حدیث جبرائیل بھی کہا جاتا ہے وہ صرف ان سوالات   اسے بھری پڑی ہے ۔ اگر اس حدیث کو غور سے پڑھیں تو اسمیں وہ سوالات کئے گئے ہیں جن کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل دونوں کا تھا، مقصد حاضرین رضی اللہ عنہا اور آنی والی نسلوں کو دین سکھانا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ سوال کا طریقہ ہی کیوں اپنایا گیا؟ وہ تمام باتیں  ایک بیان اور بہت سی دوسری حدیثوں کی طرح نثر کی شکل میں بھی سمجھائ جاسکتی تھیں مگر امت کو یہ بھی سکھانا تھا کہ کس طرح سوالات کرکے علم میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے :

یہ کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں  
Quran 38:29 
ہم خاک غور کریں گے، ہم تو سوالات بھی نہیں کرتے اور نہ غور، چاہے دین کو معاملہ ہو یا  دنیا کا، بس جو اکابر نے کہ دیا، اندھوں کی طرح اسکو من و عن تسلیم کرلیا۔ ہم اتنے کاہل ہیں کہ یہ بھی سوچنا گوارہ نہیں کرتے کہ ہمارے اکابرین نے ایسا اگر سوچا تو کیوں سوچا، یہ سوچنا تو دور کی بات کی اکابرین نے بھی تو سوالات اٹھائے۔

سوال کریں اور بہت سے کریں۔ ضروری نہیں کسی کو اپنے سامنے زبردستی بٹھاکر سوالات شروع ہوجائیں، پتہ چلا کہ مجھ سے پتہ چل رہا ہے کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی سے سوالات کر کر کے اسے مار دیا۔ بھائ آپ اپنے سے بھی سوال کرسکتے ہیں۔ بہت سے علوم کو ترقی اسی وقت ملی جب انسان نے اپنے سے سوال کیے اور انکے جوابات جاننے کے لئے جت گیا۔ اگر آپ کا بچہ سوالات کرتا ہے تو اسے ڈانٹیں نہیں بلکہ اسکی قدر کرییں۔ کسی سوال کا جواب نہیں معلوم تو اس سے کھلے طور پر کہ دیں کہ بیٹا ابھی معلوم نہیں، میں آپ کو معلوم کرکے بتادوں گا. بقول کنفیوشش کے:

ایک شخص جو سوال کرتا ہے وہ صرف چند لمحوں کے لئے بے وقوف ہوتا ہے ، ایک شخص جو سوال نہی کرتا وہ عمر بھر بے وقوف رہتا ہے۔



1 تبصرہ :

  1. ہاں بھائ عدنان صاحب آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ بس یہ ہے کہ سوال پوچھنے والا خود کتنا اہل ہے، کیا وہ ایک معقول سوال کررہا ہے؟

    ایک دیہاتی عورت خانہ کعبہ کی زیارت کرنے کے بعد کہتی ہے، "اللہ کی قبر تو دیکھ لی اب نبی کی قبر دیکھنا ہے"۔ اب اس ذہنی سطح کے لوگوں کے سوالات یقینا بے سروپا ہی ہوں گے۔

    حدیث جبرئیل کے پیرائے میں کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام کے عمومی مجمع کو سوال کرنا منع تھا، تبھی صحابہ نے اس اجنبی شخص کے سوالات کو بغور سنا۔

    جواب دیںحذف کریں